چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
by عابد علی عابد

چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل

میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
ان کے مرنے کا نام تاج محل

کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی
سانوری نار مدھ بھری چنچل

نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار
کیسے کیسے برس گئے بادل

پیار کی راگنی انوکھی ہے
اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل

بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں
نین کالے ہیں تیرے بن کاجل

مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل

لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول

لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل

کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل

کوہ کن سے مفر نہیں کوئی
بے ستوں ہو کہیں کہ بندھیاچل

ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے
خود بخود گر پڑیں گے راج محل

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse