چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
by بخش ناسخ

چین دنیا میں زمیں سے تا فلک دم بھر نہیں
داغ ہیں یہ گل نہیں ناسور ہیں اختر نہیں

سر رہے یا جائے کچھ ہم میکشوں کو ڈر نہیں
کون سا مینائے مے اے محتسب بے سر نہیں

وہ بت شیریں ادا کرتا ہے مجھ کو سنگسار
یہ شکر پارے برستے ہیں جنوں پتھر نہیں

ہو رہا ہے ایک عالم تیرے ابرو پر نثار
کون گردن ہے جہاں میں جو تہ خنجر نہیں

دم نکلنے پر جو آتا ہے نہیں رکتا ہے پھر
دیکھ لو قصر حباب اے اہل غفلت در نہیں

آدمی تو کیا وہ کہتا ہے نشان پا سے بھی
کیوں پڑا ہے میرے کوچے میں ترا کیا گھر نہیں

اے تصور کیوں بتوں کو جمع کرتا ہے یہاں
دل مرا کعبہ ہے کچھ بت خانۂ آزر نہیں

شکوہ جو بے نوکری کا کرتے ہیں نادان ہیں
آپ آقا ہے کسی کا جو کوئی نوکر نہیں

ہے خرابات جہاں میں بھی وہ ساقی سے نفور
جو کہ اے ناسخؔ غلام ساقیٔ کوثر نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse