چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
Appearance
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کیوں کر نہ بکوں میں ہاتھ اس کے
یوسف کی طرح میں خواب دیکھا
کچھ میں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اس کے لیے یاں خراب دیکھا
دل تو نے عبث لکھا تھا نامہ
جو ان نے دیا جواب دیکھا
بے جرم و گناہ قتل عاشق
مذہب میں ترے صواب دیکھا
کچھ ہووے تو ہو عدم میں راحت
ہستی میں تو ہم عذاب دیکھا
جس چشم نے مجھ طرف نظر کی
اس چشم کو میں پر آب دیکھا
حیران وہ تیرے عشق میں ہے
یاں ہم نے جو شیخ و شاب دیکھا
بھولا ہے وہ دل سے لطف اس کا
سوداؔ نے یہ جب عتاب دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |