چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
by نظام رامپوری

چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ

گو کہ اقرار غلط تھا مگر اک تھی تسکین
اب تو انکار ہے کچھ اور ہی تقریر کے ساتھ

دور ایسے نہ کھیچو پاس بھی آؤگے کبھی
وہ گئے دن جو یہ نالے نہ تھے تاثیر کے ساتھ

پیچ قسمت کا ہو تو کیا کرے اس میں کوئی
دل کو وابستگی ہے زلف گرہ گیر کے ساتھ

وہ بھی کہتے ہوئے کچھ دور تک آئے پیچھے
ہم جو اس بزم سے نکلے بھی تو توقیر کے ساتھ

یہ بھی اک وصل کی صورت تھی مگر رشک نصیب
اس کی تصویر کبھی غیر کی تصویر کے ساتھ

وعدۂ صبح پہ اب کس کو یقیں ہو قاصد
آج تو جان گئی نالۂ شب گیر کے ساتھ

کہو رنجش کا سبب کچھ نہیں میری ہی سنو
عذر تو چاہیئے کرنا مجھے تقصیر کے ساتھ

آپ دیتے ہیں اذیت ہی شکایت کی عوض
کچھ زباں سے بھی تو فرمائیے تعزیر کے ساتھ

دیکھیے مل ہی گیا آپ سے وہ شوخ نظامؔ
کام جو کچھ کرے انسان سو تدبیر کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse