چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل
by ریاض خیرآبادی

چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل
جھوٹے سچے کوئی کر لے عہد و پیماں آج کل

گھونٹ دے میرا گلا کچھ زور اگر اس کا چلے
ہاتھ سے میرے ہی تنگ اتنا گریباں آج کل

چڑھ گئے دیوار زنداں پر کبھی اترے کبھی
ہم بنے ہیں سایۂ دیوار زنداں آج کل

روز راتوں کو سنا کرتا ہوں یہ آواز قیس
پھاڑے کھاتا ہے مجھے خالی بیاباں آج کل

اے عروس تیغ کچھ تجھ کو حیا بھی چاہئے
کیوں گلے پڑتی ہے تو ہو ہو کے عریاں آج کل

سنگ دل کافر کا شاید ٹوٹتے دیکھا ہے کفر
ٹوٹ کر ملتے ہیں مجھ سے اس کے درباں آج کل

آ گیا ایسا ہی اب کافر زمانہ کیا کریں
دابے پھرتے ہیں بغل میں لوگ ایماں آج کل

رات دن ہے میری تربت پر حسینوں کا ہجوم
دیکھنے کی چیز ہے گور غریباں آج کل

دن کو روزہ عید شب کو ہے عجب شغل ریاضؔ
رات بھر پیتا ہے یہ مرد مسلماں آج کل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse