چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
by داغ دہلوی

چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
ہاتھ دھو بیٹھے مئے کوثر سے ہم

بت کدہ میں جا کے اس بت کا پتہ
پوچھتے پھرتے ہیں ہر پتھر سے ہم

قصد صحرا ہے دل ویراں کے ساتھ
اک بیاباں لے چلے ہیں گھر سے ہم

جب رگ جاں سے کمی کرتا ہے خون
چھیڑ دیتے ہیں اسے نشتر سے ہم

کس قدر کٹتی ہے راہ شوق جلد
تیز چلتے ہیں ترے خنجر سے ہم

کیا کہیں کس سے کہیں کس کے لیے
پھرتے ہیں چاروں طرف مضطر سے ہم

وہ ستم گر روبرو ہوگا تو داغؔ
کیا کہیں گے داور محشر سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse