چھپ گیا یار خود نما ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھپ گیا یار خود نما ہو کر
by حسن بریلوی

چھپ گیا یار خود نما ہو کر
رہ گئی چشم شوق وا ہو کر

بے قراروں سے ان کو شرم آئی
شوخیاں رہ گئیں حیا ہو کر

کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر

روٹھ کر ان سے ہم کہاں جیتیں
وہ منا لیتے ہیں خفا ہو کر

پھنس گیا دل تو چھوڑ دو ہم کو
اب کہاں جائیں گے رہا ہو کر

دل سے کچھ کہہ رہی ہیں وہ آنکھیں
دیکھیں کیا ٹھہرے مشورا ہو کر

ہاتھ اٹھا کر تلاش دل سے حسنؔ
بیٹھ رہئے شکستہ پا ہو کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse