چھپنے والے یہ بھی چھپنے کا کوئی انداز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھپنے والے یہ بھی چھپنے کا کوئی انداز ہے
by صفدر مرزا پوری

چھپنے والے یہ بھی چھپنے کا کوئی انداز ہے
تو ہے پردے میں مگر باہر تری آواز ہے

ہائے کیا بانکی ادا ہے کیا خرام ناز ہے
چال خنجر کی عروس تیغ کا انداز ہے

عشق میں کامل ہوں میں وہ حسن میں ممتاز ہے
میں سراپا درد ہوں قاتل سراپا ناز ہے

خیر ہو یا رب محبت کا ابھی آغاز ہے
رنگ رخ میرا ابھی سے مائل پرواز ہے

بجلیوں میں گھر گیا ہے دل الٰہی خیر ہو
شوخیاں آفت ہیں قہر اس پر نگاہ ناز ہے

تم گئے گل گشت کو رسوائیوں کے گل کھلے
ہم نہ کہتے تھے زمانہ کی ہوا ناساز ہے

یہ تو کہیے جان بھی دل بھی جگر بھی لے چکے
اب یہ کس کی تاک میں چشم فسوں پرداز ہے

ایک وہ جلاد ہے بلبل ہے جس کی قید میں
دوسرا جلاد اس کی حسرت پرواز ہے

شکر کی جا ہے کہ تیرا حسن میرا عشق آج
قابل صد آفریں ہے مایۂ صد ناز ہے

چارہ سازوں میں خدا رکھے یہی اب رہ گئے
آہ ہے ہمدم مری درد جگر دم ساز ہے

دوست بن بن کے مرے دشمن بناتے ہیں مجھے
یہ زمانہ بھی مگر کتنا زمانہ ساز ہے

دونوں اپنے فن میں کامل ہیں مگر اتنا ہے فرق
مجھ کو ہے مشق وفا قاتل کو عشق ناز ہے

دل میں ظالم کے ہے گو میری محبت کا اثر
منہ سے کہہ سکتا نہیں یہ اک ستم کا راز ہے

خوشہ چیں اس کا ہوں صفدرؔ جس کو کہتے ہیں جلیلؔ
سامنے خاموش جس کے بلبل شیراز ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse