چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی
by سیماب اکبرآبادی

چھپاتا ہوں مگر چھپتا نہیں درد نہاں پھر بھی
نگاہ یاس ہو جاتی ہے دل کی ترجماں پھر بھی

غم واماندگی سے بے نیاز ہوش بیٹھا ہوں
چلی آتی ہے آواز درائے کارواں پھر بھی

حجاب اندر حجاب امواج طوفان تجلی ہیں
فروغ شمع سے پروانہ ہے آتش بجاں پھر بھی

اشاروں سے نگاہوں سے بہت کچھ منع کرتا ہوں
قفس ہی پر جھکی پڑتی ہے شاخ آشیاں پھر بھی

بہت دلچسپ ہے سیمابؔ شام وادئ غربت
وطن کی صبح میں کچھ اور تھیں رنگینیاں پھر بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse