چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا
by صفی اورنگ آبادی

چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا
مثل مشہور ہے سرکار مرتا کیا نہیں کرتا

بہت اچھا ہوا دشمن نے مجھ سے دشمنی کر لی
سوا میرے نہ جانے اور کس کس کو یہ لے مرتا

اگر دشمن سے ایسے پیش آتے تو مزہ پاتے
کروں کیا عرض جو برتاؤ مجھ سے آپ نے برتا

کسی پیماں شکن نے رکتے رکتے بات تو کر لی
جو وعدے ہی پہ ہم اڑتے تو یہ کرتا نہ وہ کرتا

نہیں مجھ سے تری بے اعتنائی قابل حیرت
غریب انسان دنیا کی نگاہوں میں نہیں بھرتا

صفیؔ نے ٹھوکریں کھا کے بھی اپنی وضع کب بدلی
سمجھ والا اگر ہوتا حسینوں سے بہت ڈرتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse