چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری
by ریاض خیرآبادی

چھوڑتی ہی نہیں مجھ کو شب فرقت میری
اے میں قربان اسے اتنی محبت میری

کیوں کر اوپر اٹھیں آنکھیں مری اے حسرت دید
سر اٹھانے نہیں دیتی ہے ندامت میری

پھوٹ کر رونے سے اشکوں کا مرا ہے پانی
بے بہار آئے کھلی جاتی ہے تربت میری

وصل کی شب وہ ڈراتے ہیں یہ کہہ کہہ کے مجھے
تم ستاؤ تمہیں کوسے گی نزاکت میری

جلوۂ یار نے بے ہوش کیا ہے مجھ کو
کچھ الگ نشۂ مے سے رہی غفلت میری

آنکھ تاروں نے چرائی یہ نئی بات ہے آج
دیکھیے کٹتی ہے کیوں کر شب غربت میری

رہن مے ہونے سے بچ جائے تو عزت رہ جائے
مول لے لے کوئی دستار فضیلت میری

رہیں تا حشر یوں ہی مہندی لگے پاؤں کے نقش
چار پھولوں کی نہ محتاج ہو تربت میری

تارے مجھ کو نظر آئیں نہ کہیں حشر کے دن
ڈر سے بڑھ جائے نہ حد سے شب فرقت میری

چھیڑ کر مجمع زہاد کو ڈرتا ہوں ریاضؔ
کہنہ مسجد کی عوض ہو نہ مرمت میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse