چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا
by داغ دہلوی

چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا
سر پہ احسان رہے اس لیے سر چھوڑ دیا

ٹکڑے ٹکڑے کیا ناصح کا گریباں میں نے
شکر ہے اس نے مرا دامن تر چھوڑ دیا

کام سب خانہ خرابی کے ہوئے ہیں تجھ سے
رحم کھا کر تجھے اے دیدۂ تر چھوڑ دیا

پھر کہاں تھا نہ یہاں تھا نہ وہاں تھا وہ شوخ
دامن اس کا جو سر راہ گزر چھوڑ دیا

لے گئی تھی ترے دیوانہ کو گھر سے وحشت
نہیں معلوم کہ جنگل میں کدھر چھوڑ دیا

داغؔ وارفتہ طبیعت کا ٹھکانہ کیا ہے
خانہ برباد نے مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse