چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
by شاہ نصیر

چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
ہم سے تو بت کافر بہ خدا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں
جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

اس آئینہ رو کے وصل میں بھی مشتاق بوس و کنار رہے
اے عالم حیرت تیرے سوا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

دل کوئے بتاں میں جا بیٹھا دم خانۂ تن کو چھوڑ گیا
حیف آخر کار رفیق اپنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

یا بہر طواف کعبہ گئے یا معتکف بت خانہ ہوئے
کیا شیخ و برہمن ہم نے کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

کھینچ اس کو نہ لایا جذبۂ دل تاثیر نہ کچھ نالے ہی نے کی
میں دونوں کا بس شاکی ہی رہا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

اس لب کا لیا بوسہ نہ کبھو ہیہات نہ لپٹا پاؤں سے
دل تجھ سے برنگ پان و حنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

مجنوں تو پھرا جنگل جنگل فرہاد نے چیرا کوہ دلا
میں آہ رہا بے دست و پا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

دن کو بھی نہ دیکھا ہم نے اسے شب خواب میں بھی یارو نہ ملا
اس طالع خفتہ کا ہووے برا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

نزدیک نصیرؔ اپنے آساں فرمائش تھی گویا یہ غزل
کچھ اس کا بھی کہنا مشکل تھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse