چھوٹا بڑا نہ کم نہ منجھولا ازار بند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھوٹا بڑا نہ کم نہ منجھولا ازار بند
by نظیر اکبر آبادی

چھوٹا بڑا نہ کم نہ منجھولا ازار بند
ہے اس پری کا سب سے امولا ازار بند

ہر اِک قدم پہ شوخ کہ زانو کہ درمیاں
کھاتا ہے کس جھلک سے جھکولا ازار بند

ہنسنے میں ہاتھ مرا کہیں لگ گیا تُو وہ
لونڈی سے بولی جا میرا دھو لا ازار بند

اُور دھو نہیں تُو پھینک دے ناپاک ہو گیا
وُہ دوسرا جُو ہے سو پرو لا ازار بند

اِک دِن کہا جو میں نے کے اے جان آپ کا
ہم نے کبھو مزے میں نہ کھولا ازار بند

سن کر لگی یہ کہنے کے اے واچھڑے چہ خوش
ایسا بھی کیا میں رکھتی ہوں پولا ازار بند

آ جاوے اس طرح سے جو اب ہر کسی کہ ہاتھ
ویسا تُو کچھ نہیں میرا بھولا ازار بند

اِک رات مرے ساتھ وُہ عیار مکر باز
لیٹی چھپا کہ اپنا ممولا ازار بند

جب سو گئی تُو میں نے بھی دہشت سے اس کی آ
پہلے تُو چپکے چپکے ٹٹولا ازار بند

آخر بڑی تلاش سے اس شوخ کا نظیرؔ
جب آدھی رات گزری تُو کھولا ازار بند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse