چھانتا ہے خاک کیا تو گھر بنانے کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چھانتا ہے خاک کیا تو گھر بنانے کے لیے
by خواجہ محمد وزیر

چھانتا ہے خاک کیا تو گھر بنانے کے لیے
فکر رہنے کی نہ کر آیا ہے جانے کے لیے

اور کو کیا رنج دوں راحت اٹھانے کے لیے
ایک تنکے کو نہ چھیڑوں آشیانے کے لیے

برق تھی بیتاب میرے آشیانے کے لیے
ابر سے بھی پیشتر آئے جلانے کے لیے

کام آئی مرغ گلشن کے مری کاہیدگی
لے گیا تنکا سمجھ کر آشیانے کے لیے

اس چمن سے گل چلے بلبل گریباں پھاڑ کر
ہے جنوں تنکے جو چننے آشیانے کے لیے

ہم نے کیوں مانگی تھی گلشن میں دعائے جوش گل
اب جگہ ملتی نہیں ہے آشیانے کے لیے

پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھی وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے

ہوں وہ غم دیدہ ہنسے کوئی تو میں رونے لگوں
کچھ بہانا چاہئے آنسو بہانے کے لیے

سایہ پڑ جائے اگر زلف دراز یار کا
پھر کہوں میں بھی تسلسل ہے زمانے کے لیے

ہوں وہ دیوانہ کہ بن کر ہو وہ مجنوں کی شبیہ
میری مٹی لیں اگر لیلیٰ بنانے کے لیے

پہنچی ہے شانے تلک کیا یار کی زلف رسا
درد کیوں پیدا ہوا ہے میرے شانے کے لیے

جملہ تن ہے چشم نرگس یار تیری دید کو
گل ہمہ تن گوش ہیں تیرے فسانے کے لیے

یوں مری قسمت میں تھا پرواز کرنا یا نصیب
نوچتے ہیں طفل پر میرے اڑانے کے لیے

کون ہوگا تیرے تیروں کا نشانہ میرے بعد
خاک لے جانا مری تودہ بنانے کے لیے

بزم عالم میں کھڑا ہوں پر چلا جاتا ہوں میں
سیکھ لی ہے شمع سے رفتار جانے کے لیے

کیوں دل بے تاب کو دکھلایا خال زیر زلف
دام میں مچھلی نہیں آنے کی دانے کے لیے

ہو اگر سرگشتگی میں فکر تعمیر مکاں
خاک اڑا لائے بگولہ گھر بنانے کے لیے

اب کسی گل رو کے دل میں کیجیے گھر اے وزیرؔ
کیا چمن میں تنکے چنئے آشیانے کے لیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse