چڑھی تیرے بیمار فرقت کو تب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چڑھی تیرے بیمار فرقت کو تب ہے
by رند لکھنوی

چڑھی تیرے بیمار فرقت کو تب ہے
بشدت قلق ہے نہایت تعب ہے

مریض محبت ترا جاں بلب ہے
تجاہل ستم ہے تغافل غضب ہے

وہ آفت ہے آفت ہے آفت ہے آفت
غضب ہے غضب ہے غضب ہے غضب ہے

گلی یار کی ہے قدم رکھوں کیوں کر
چلوں سر کے بل یاں مقام ادب ہے

جو ابرو دکھایا تو عارض بھی دکھلا
وہ قرآن ہے یہ ہلال رجب ہے

ہوئی صبح پیری کٹی اب جوانی
یہ جلنا فقط شمع ساں شب کی شب ہے

وہ زلف سیہ ہے کہ مشک ختن ہے
نہیں خط سواد دیار حلب ہے

کھلا کچھ نہ مجھ پر نہ آنے کا منشا
جہت کچھ تو فرمائیے کیا سبب ہے

جو شجرہ تھا مجنوں کا شجرہ ہے میرا
جو تھا قیس کا سلسلہ وہ نسب ہے

غنیمت سمجھ وقت فرصت کو غافل
نہ ہاتھ آئے گا پھر یہ موقع جو اب ہے

خدا کی خدائی کا جلوہ ہے او بت
یہ حسن جوانی نہیں شان رب ہے

کروں کیوں نہ سامان عشرت مہیا
شب وصل دلبر عروسی کی شب ہے

جسے لوگ کہتے ہیں شاہ خراساں
وہ بے شبہ ابن امیر عرب ہے

غلام اس کا ہوں جو ہے کوثر کا ساقی
جبھی رندؔ مے خوار میرا لقب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse