Jump to content

چچا سام کے نام پانچواں خط

From Wikisource
چچا سام کے نام پانچواں خط (1954)
by سعادت حسن منٹو
319921چچا سام کے نام پانچواں خط1954سعادت حسن منٹو

محترمی چچا جان!

تسلیمات، میں اب تک آپ کو ’’پیارے چچا جان‘‘ سے خطاب کرتا رہا ہوں پر اب کی دفعہ میں نے ’’محترمی چچا جان‘‘ لکھا ہے، اس لئے کہ میں ناراض ہوں۔ ناراضی کا باعث یہ ہے کہ آپ نے مجھے میرا تحفہ (ایٹم بم) ابھی تک نہیں بھیجا۔ بتایئے یہ بھی کوئی بات ہے۔

سنا تھا کہ باپ سے زیادہ چچا بچوں سے پیار کرتا ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ مگر وہاں بہت سی ایسی باتیں نہیں ہوتیں جو یہاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں آئے دن وزارتیں بدلتی ہیں۔ آپ کے یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ یہاں نبی پیدا ہوتے ہیں، وہاں نہیں ہوتے۔ یہاں ان کے ماننے والے وزیر خارجہ بنتے ہیں۔ اس پر ملک میں ہنگامے برپا ہوتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان ہنگاموں پر تحقیقاتی کمیشن بیٹھتی ہے۔ اس کے اوپر کوئی اور بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں اس قسم کی کوئی دلچسپ بات نہیں ہوتی۔ چچا جان، میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ آپ اپنے یہاں نبی کیوں پیدا نہیں ہونے دیتے۔ خدا کی قسم ایک پیدا کر لیجئے۔ بڑی تفریح رہے گی۔ بڑھاپے میں وہ آپ کی لاٹھی کا کام دے گا۔ اس لاٹھی سے آپ امریکہ کی ساری بھنسیں ہانک سکیں گے (بھینسیں تو یقیناً آپ کے یہاں ضرور ہوں گی۔) اگر آپ نبی پیدا کرنے سے کسی وجہ سے معذور ہوں تو مجھے حکم دیجئے۔ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے گزارش کروں گا۔ وہ اپنا صاحب زادہ بھیج دیں گے۔ جلدی لکھئے گا ایسا نہ ہو آپ کے دشمن روس سے مانگ آ جائے اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں۔

بات ایٹم بم کی تھی جو میں نے آپ سے تحفے کے طور پر مانگا تھا اور میں نبی اور نبی زاردوں کی طرف چلا گیا۔۔۔ ہاں۔۔۔ کتنی معمولی بات تھی۔ میں نے صرف ایک چھوٹا، بہت ہی چھوٹا ایٹم بم مانگا تھا جس سے میں ایک ایسے آدمی کو اڑا سکتا جو مجھے اپنی گھیرے دار شلوار کے نیفے کے اندر ہاتھ ڈال کر ڈھیلا لگاتا نظر آتا۔۔۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میری خواہش کی شدت کو محسوس نہیں کیا۔ یا شاید آپ ہائیڈروجن بموں کے تجربات میں مشغول تھے۔ چچا جان، یہ ہائی ڈروجن بم کیا بلا ہے۔ آٹھویں جماعت میں ہم نے پڑھا تھا کہ ہائیڈروجن ایک گیس ہوتی ہے، ہوا سے ہلکی، آپ اس کرۂ ارض کے سینے سے کس ملک کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔ روس کا؟

مگر سنا ہے وہ کم بخت نائٹروجن بم بنا رہا ہے۔ آٹھویں جماعت ہی میں ہم نے پڑھا تھا کہ نائٹروجن ایک گیس ہوتی ہے جس میں آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس کے جواب میں آکسیجن بم بنا دیں۔ آٹھویں جماعت میں ہم نے پڑھا تھا کہ نائٹروجن اور آکسیجن گیسیں جب آپس میں ملتے ہیں تو پانی بن جاتا ہے۔ کیا ہی مزا آئے گا۔ ادھر آپ آکسیجن بم پھینکیں گے، ادھر روس نائٹروجن بم۔۔۔ باقی دنیا پانی میں ڈبکیاں لگائے گی۔

خیر یہ تو مذاق کی بات تھی۔ سنا ہے آپ نے ہائیڈروجن بم صرف اس لئے بنایا ہے کہ دنیا میں مکمل امن و امان قائم ہو جائے۔ یوں تو اللہ کی اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن مجھے آپ کی بات کا یقین ہے۔ ایک اس لئے کہ میں نے آپ کا گندم کھایا ہے اور پھر میں آپ کا بھتیجا ہوں۔ بزرگوں کی بات یوں بھی چھوٹوں کو فوراً ماننی چاہیئے، لیکن میں پوچھتا ہوں، اگر آپ نے دنیا میں امن و امان قائم کر دیا تو دنیا کتنی چھوٹی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے کتنے ملک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوں گے۔۔۔ میری بھتیجی جو اسکول میں پڑھتی ہے، کل مجھ سے دنیا کا نقشہ بنانے کو کہہ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا، ابھی نہیں، پہلے مجھے چچا جان سے بات کر لینے دو۔ ان سے پوچھ لوں کون سا ملک رہے گا، کون سا نہیں رہے گا، پھر بنا دوں گا۔

خدا کے لئے روس کو سب سے پہلے اڑایئے گا۔ اس سے مجھے خدا واسطے کا بیر ہے۔ سات آٹھ دن ہوئے وہاں سے فن کاروں کا ایک وفد آیا تھا۔ خیر سگالی کر کے میرا خیال ہے اب واپس چلا گیا ہے۔ اس وفد میں ناچنے اور گانے والیاں تھیں، جنہوں نے ناچ گا کر ہمارے سادہ لوح پاکستانیوں کا دل موہ لیا۔ اب آپ اس کے توڑ میں جب تک وہاں سے کوئی ایسا گاتا بجاتا ناچتا تھرکتا خیر سگالی وفد نہیں بھیجیں گے، کام نہیں چلے گا۔ میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ہالی وڈ کی چند ’’ملین ڈالر‘‘ ٹانگوں والی لڑکیاں یہاں روانہ کر دیجئے، مگر آپ نے اپنے کم عقل بھتیجے کی اس بات پر کوئی غور نہ کیا اور ہائیڈروجن بم کے تجربوں میں مصروف رہے۔ قبلہ، جادو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ ذرا اپنے سفارت خانے متعینہ پاکستان سے پوچھیئے۔ یہاں ہر ایک کی زبان پر تمہارا خانم اور مادام عاشورہ کا نام ہے۔ یہاں کا ایک بہت بڑا اردو اخبار ’’زمیندار‘‘ ہے، اس کے ایڈیٹر بڑے زاہد خشک قسم کے نوجوان ہیں۔ ان پر اس روسی وفد نے اتنا اثر کیا کہ نثر میں شاعری کرنے لگے۔ ایک پیرا ملاحظہ فرمایئے،

’’جب وہ گا رہی تھی تو کھچا کھچ بھرے اوپن تھیٹر (شاید آپ کے یہاں ایسا تھیٹر نہ ہو) میں سامعین کے سانس لینے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ تھیٹر پر جھکا ہوا تاروں بھرا آسمان اور اسٹیج کے چاروں طرف ابھرے ہوئے سرسبز درخت بھی دم بخود تھے اور اس گمبھیر سناٹے میں ایک کوئل کوک رہی تھی۔ اس کی تیز، گہری اور روح کو چیر دینے والی آواز، تاریک رات کے سینے میں جابجا ان دیکھی روشنی کے گہرے گھاؤ ڈال رہی تھی۔‘‘

پڑھ لیا آپ نے۔۔۔؟ چچا جان یہ معاملہ بہت سنگین ہے۔ ہائیڈروجن بموں کو فی الحال چھوڑیئے اور اس طرف توجہ دیجئے۔ آپ کے پاس کیا حسیناؤں کی کمی ہے۔ چشم بددور ایک سے ایک پٹاخاسی موجود ہے، لیکن میں آپ کو ایک مشورہ دوں، جتنی بھیجئے گا، سب کی ٹانگیں ’’ملین ڈالر‘‘ قسم کی ہوں اور ہمارے پاکستانی مردوں کو بوسہ دینے سے نہ گھبرائیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے ایک جہاز بھر کولی نوس ٹوتھ پیسٹ بھیج دی تو میں سب کے دانت صاف کرا دوں گا۔ ان کے منہ سے بو نہیں آئے گی۔ آپ میری بات مان گئے تو آپ کی سات آزادیوں کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ روس والوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے اور تمہارا خانم اور مادام عاشورہ ٹاپتی رہ جائے گی اور زمیندار کے ایڈیٹر کو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے، لیکن چچا جان، ایک بات سن لیجئے، اگر آپ نے الزبتھ ٹیلر کو بھیجا تو اس کے بوسے صرف میرے لئے وقف ہوں گے۔ مجھے اس کے ہونٹ بہت پسند ہیں۔

ہاں، اس خیرسگالی وفد میں کہیں اس حبشی گویئے پال روبسن کو نہ شامل کیجئے گا۔ سالا (سالے کا مطلب ہے، بیوی کا بھائی، ہم اسے گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔) کمیونسٹ ہے۔ مجھے حیرت ہے آپ نے اسے ابھی تک ایسٹ افریقہ کیوں نہیں بھیجا۔ وہاں اسے بڑی آسانی سے ’ماؤ ٹاؤ‘کی تحریک میں ماخوذ کر کے گولی سے اڑایا جا سکتا ہے۔ میں اس خیر سگالی وفد کا بے چینی سے انتظار کروں گا اور ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر سے کہوں گا کہ وہ ابھی سے اس کا پروپیگنڈہ شروع کر دے۔ بڑا نیک اور برخوردار قسم کا آدمی ہے۔ میری بات نہیں ٹالے گا۔ ویسے آپ اسے تحفے کے طور پر ریٹا بیورتھ کی اوٹو گرافڈ تصویر بھجوا دیجیئے گا۔ بیچارہ اسی میں خوش ہو جائے گا۔

میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ جب آپ کا یہ خیرسگالی وفد لاہور میں آئے گا تو میں اسے ہیرا منڈی کی سیر کراؤں گا۔ شورش کاشمیری صاحب کو میں ساتھ لے چلوں گا کہ وہ اس علاقے کے پیر ہیں۔ (حال ہی میں آپ نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان، ’’اس بازار میں‘‘ ہے۔ آپ اپنے سفارت خانے کو حکم دیجئے۔ وہ آپ کو اس کا ترجمہ کرا کے بھیج دے گا۔) یہاں ایک سے ایک درخشندہ و تابندہ ہیرا پڑا ہے۔۔۔ ہر تراش کا، ہر وزن کا۔ اب اور باتیں شروع کرتا ہوں۔۔۔ پاکستان کو آپ کی فوجی امداد دینے کے فیصلے اور مشرق بعید کے دیگر مسائل پر بھارت اور آپ کے اختلافات پر پنڈت نہرو نے پچھلے دنوں جو زبردست نکتہ چینی کی تھی، سنا ہے، اس کا یہ رد عمل ہوا ہے کہ آپ کے ملک کی حکمت عملی میں ایک نیا رجحان ترقی کر رہا ہے۔ بعض کی یہ بھی رائے ہے کہ امریکہ بھارت کو اپنے عزائم کے متعلق اطمینان دلانے کی ضرورت سے زیادہ کوشش کر رہا ہے۔

آپ کے جنوبی ایشیائی اور افریقی معاملات کے اعلیٰ افسر، کیا نام ہے ان کا۔۔۔؟ ہاں۔۔ مسٹر جان جونیگنز نے اپنے ایک بیان میں بھارت کے لئے اپنے ملک کے خیر سگالی جذبات کی ترجمانی کی ہے، اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ واشنگٹن، دلی کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے تڑپ رہا ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں پاکستان اور بھارت کو خوش رکھنے سے آپ کا واحد مقصد یہی ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی اور جمہوریت کا ٹمٹماتا دیا جل رہا ہے، اسے پھونک سے نہ بجھایا جائے بلکہ اس کو تیل دیا جائے۔۔۔ بلکہ تیل میں ڈبو دیا جائے تاکہ وہ پھر کبھی اپنی تشنہ لبی کا شکوہ نہ کرے۔۔۔ ہے نا چچا جان؟

آپ پاکستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے کہ آپ کو درۂ خیبر سے بے حد پیار ہے جہاں سے حملہ آور صدیوں سے ہم پر حملہ کرتے رہے ہیں۔ اصل میں درۂ خیبر ہے بھی بہت خوبصورت چیز، اس سے پیاری اور خوبصورت چیز پاکستان کے پاس اور ہے بھی کیا؟ اور بھارت کو آپ اس لئے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں کہ پولینڈ، چیکوسلوویکیہ اور کوریا میں روس کی جارحانہ کارروائیاں دیکھ کر آپ کو ہر دم اس بات کا کھٹکا رہتا ہے کہ یہ سرخ مملکت کہیں بھارت میں بھی درانتیاں اور ہتھوڑے چلانا شروع نہ کر دے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کی آزادی خدا نخواستہ خدا نخواستہ چھن گئی تو کتنا بڑا المیہ ہوگا۔۔۔ اس کا تصور کرتے ہی آپ کانپ کانپ اٹھتے ہوں گے۔ آپ کی تاروں والی اونچی ٹوپی کی قسم، آپ ایسا مخلص انسان کبھی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔۔۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے اور آپ کی سات آزادیوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے۔

یہاں ایک علاقہ ہے مغربی پنجاب، اس کے وزیر اعلیٰ ہیں فیروز خان نون (ان کی بیگم ایک انگریز خاتون ہیں۔) آپ نے ان کا نام تو سنا ہوگا۔ حال ہی میں آپ نے اپنے دولت کدے پر (جو پنچولی فلم اسٹوڈیو کے آگے ہے) ایک کانفرنس بلائی۔ اس میں آپ نے مسلم لیگ (جسے مشرقی پاکستان میں شکست فاش ہوئی ہے۔) کے کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اشتراکیوں (سرخوں) کے مقابلے کے لئے جدوجہد کریں۔ دیکھئے چچا جان! آپ فوراً فیروز خان نون صاحب کا شکریہ ادا کیجئے اور خیر سگالی طور پر ان کی بیگم صاحبہ کے لئے ہالی وڈ کے سلے ہوئے دو تین ہزار فراک بھیج دیجئے۔۔۔ کہیں آپ نے بھیج تو نہیں دیے۔ میں بھول گیا تھا کیونکہ اب وہ ساڑھی پہنتی ہیں۔ بہرحال نون صاحب کا اشتراکیت دشمن ہونا بڑی نیک فال ہے کیونکہ کامریڈ فیروز الدین منصور پھر جیل میں ہوگا۔ مجھے اس کا ہر وقت دمے کے مرض میں گرفتار رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

اب میں آپ کو ایک بڑا اچھا مشورہ دیتا ہوں۔ ہماری حکومت نے حال ہی میں کامریڈ سبط حسن کو جیل سے رہا کیا ہے۔ آپ اس کو اغوا کر کے لے جایئے۔ میرا دوست ہے، لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ اپنی پیاری پیاری نرم نرم باتوں سے ایک روز مجھے ضرور کمیونسٹ بنا لے گا۔ یوں تو میں اتنا ڈرپوک نہیں۔ کمیونسٹ ہو بھی جاؤں تو میرا کیا بگڑ جائے گا مگر آپ کی عزت پر حرف آنے کا خیال ہے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ آپ کا بھتیجا ایسے برے دلدل میں جا دھنسا۔۔۔ میری اس برخورداری پر ایک شاباشی تو بھیجئے۔

اب میں احوال روز گار کی طرف آتا ہوں۔ چچا جان آپ کی ریش مبارک کی قسم۔ دن بہت برے گزر رہے ہیں۔ اتنے برے گزر رہے ہیں کہ اچھے دنوں کے لئے دعا مانگنا بھی بھول گیا ہوں۔ یہ سمجھئے کہ بدن پر لتے جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ جو غریب ہیں ان کو مرنے پر کفن بھی نہیں ملتا۔ جو زندہ ہیں وہ تار تار لباس میں نظر آتے ہیں۔ میں نے تو تنگ آ کر سوچا ہے کہ ایک ’’ننگا کلب‘‘ کھول دوں، لیکن سوچتا ہوں ننگے کھائیں گے کیا۔۔۔ ایک دوسرے کا ننگ۔۔۔؟ مگر وہ بھی اتنا کریہہ ہوگا کہ نگاہیں لقمہ اٹھاتے ہی وہیں رکھ دیں گی۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔ کوئی تنگی سی تنگی ہے۔ کوئی ترشی سی ترشی ہے، لیکن چچا جان داد دیجئے۔

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

لیکن چھوڑیئے اس قصے کو، آپ خوش گلو، خوش اندام اور خوش خرام حسینوں کا وہ خیر سگالی وفد بھیج دیجئے۔ ہم اس غربت میں بھی اپنا جی ’’پشوری‘‘ کر لیں گے۔ فی الحال آپ الزبتھ ٹیلر کے ہونٹوں کا ایک پرنٹ بھیج دیجئے۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔

آپ کا تابعدار بھتیجا
سعادت حسن منٹو
۳۱ لکشمی، مینشنز ہال روڈ، لاہور


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.