چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
by محمد ابراہیم ذوق

چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
جی ہی جی میں تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ابر کیا آنسو بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
برق کیا ہے تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ذکر شمع حسن لانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ان کو درپردہ جلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جھوٹ موٹ افیون کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ان کو کف لا کر ڈرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

سن کے آمد ان کی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں ہم
پیشوا لینے کو جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

ہم نے اول ہی کہا تھا تو کرے گا ہم کو قتل
تیوروں کا تاڑ جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

لطف اٹھانا ہے اگر منظور اس کے ناز کا
پہلے اس کا ناز اٹھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جو سکھایا اپنی قسمت نے وگرنہ اس کو غیر
کیا سکھائے گا سکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

دیکھ کر قاتل کو بھر لائے خراش دل میں خوں
سچ تو یہ ہے مسکرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

تیر و پیکاں دل میں جتنے تھے دیے ہم نے نکال
اپنے ہاتھوں گھر لٹانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

کہہ دو قاصد سے کہ جائے کچھ بہانے سے وہاں
گر نہیں آتا بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

خط میں لکھوا کر انہیں بھیجا تو مطلع درد کا
درد دل اپنا جتانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

جب کہا مرتا ہوں وہ بولے مرا سر کاٹ کر
جھوٹ کو سچ کر دکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

واں ہلے ابرو یہاں پھیری گلے پر ہم نے تیغ
بات کا ایما سے پانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

تیغ تو اوچھی پڑی تھی گر پڑے ہم آپ سے
دل کو قاتل کے بڑھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

زخم کو سیتے ہیں سب پر سوزن الماس سے
چاک سینے کے سلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

پوچھے ملا سے جسے کرنا ہو سجدہ سہو کا
سیکھے گر اپنا بھلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

کیا ہوا اے ذوقؔ ہیں جوں مردمک ہم رو سیاہ
لیکن آنکھوں میں سمانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse