چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی
by عبدالرحمان احسان دہلوی

چٹکیاں لی ہی کہ اٹھ بیٹھ جو مر جائے کوئی
اے ستم گر ترے ہاتھوں سے کدھر جائے کوئی

کیوں کی گزرے گی نہ گزرو گے جو تم یار ادھر
پس یہ مرضی ہے کہ بس جیسے گزر جائے کوئی

مرے مرنے سے ترا شہرہ ہوا یا قسمت
کہ بگڑ جائے کوئی اور سنور جائے کوئی

ایک دم کا بھی بھروسا نہیں مانند حیات
بحر ہستی میں حباب آ کے ابھر جائے کوئی

شمع ساں سر نہ کٹے اس کا یہ امکان نہیں
بزم خوباں میں جو با دیدۂ تر جائے کوئی

دل مرا تم نے چرایا مجھے الٹی ہے یہ فکر
نہ خبر پائے کوئی تا نہ بپھر جائے کوئی

آپ کے عہد میں یہ رسم ہے دیکھی ہم نے
کہ گنہ گار کوئی اور ہو ڈر جائے کوئی

گھر سے نکلو کہ ہمیں گھر کی نہ کچھ یاد رہے
گھر میں بیٹھے ہوئے کہتی ہو نہ گھر جائے کوئی

یوں تو سمجھے سنے آتی نہیں احساںؔ کو سمجھ
کیا تماشا ہو کہ دل لے کے مکر جائے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse