چور صدموں سے ہو بعید نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چور صدموں سے ہو بعید نہیں
by امداد علی بحر

چور صدموں سے ہو بعید نہیں
آبگینہ ہے دل حدید نہیں

مے کشی کیا کرے بھلا زاہد
مغفرت کی اسے امید نہیں

چار سو ہے اندھیرا آنکھوں میں
چار دن سے جو اس کی دید نہیں

میرے آگے ملی وہ غیروں سے
ہے محرم مجھے یہ عید نہیں

قتل عالم ہے تیرے ابرو پر
کوئی تلوار سے شہید نہیں

اپنے دل سے مجھے ارادت ہے
میں کسی پیر کا مرید نہیں

دل کسی سے لگے تو کیا چھوٹے
کوئی اس قفل کی کلید نہیں

دیکھ لے مر کے سختیٔ سکرات
صدمۂ ہجر سے شدید نہیں

وصل جاناں ہے صیغۂ تہمت
کہ مجرد ہیں ہم مزید نہیں

عشق کیا درد ہے خداوندا
کوئی دارو دوا مفید نہیں

نحن اقرب دلیل ہے اے بحرؔ
یار نزدیک ہے بعید نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.