چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
by احمد حسین مائل

چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
چلمن تو بیچ میں ہے اشارے ہوئے تو کیا

بوسہ دہی کا لطف ملا حسن بڑھ گیا
رخسار لال لال تمہارے ہوئے تو کیا

بے پردہ منہ دکھا کے مرے ہوش اڑاؤ تم
پردے کی آڑ سے جو نظارے ہوئے تو کیا

مجھ کو کڑھا کڑھا کے وہ ماریں گے جان سے
دلبر ہوئے تو کیا مرے پیارے ہوئے تو کیا

اے جاں مقابلہ مرے ہاتھوں سے کب ہوا
جوبن ترے ابھر کے کرارے ہوئے تو کیا

الفت کا لطف کیا جو بغل ہی نہ گرم ہو
وہ دل میں رہنے والے ہمارے ہوئے تو کیا

تاثیر دے دعا میں خدا ہے یہی دعا
اونچے جو دونوں ہاتھ ہمارے ہوئے تو کیا

بوسہ نہ دے وہ مجھ کو تو میں اس کو دل نہ دوں
اس گورے ہاتھ سے جو اشارے ہوئے تو کیا

تم سوؤ پھیل کے پھولوں کی سیج پر
فرقت میں ہم جو گور کنارے ہوئے تو کیا

سینہ ملا کے سینہ سے دل میں جگہ کرو
پھرتے ہو جوبنوں کو ابھارے ہوئے تو کیا

کب کھیلنے پکڑ کے ہوا میں سے لائے وہ
جگنو جو آہ دل کے شرارے ہوئے تو کیا

اے جاں ہے تیری زلف پریشاں کا حسن اور
حوروں کے بال ہیں جو سنوارے ہوئے تو کیا

آنکھیں کھلی بھی ہوں تو وہی سامنے رہے
آنکھوں کو بند کر کے نظارے ہوئے تو کیا

لاکھوں مزے ملیں مرے لب سے اگر ملیں
وہ گورے گال آنکھ کے تارے ہوئے تو کیا

یک بوسہ اور لونگا عرق منہ سے پوچھ کر
وہ آب آب شرم کے مارے ہوئے تو کیا

مائلؔ نہ ہو وصال تو کیا عشق کا مزا
معشوق دور سے وہ ہمارے ہوئے تو کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse