چننے نہ دیا ایک مجھے لاکھ جھڑے پھول

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چننے نہ دیا ایک مجھے لاکھ جھڑے پھول
by امداد علی بحر

چننے نہ دیا ایک مجھے لاکھ جھڑے پھول
اللہ کرے خانۂ گلچیں میں پڑے پھول

ہم پلہ ہوئے اس سے نہ چھوٹے نہ بڑے پھول
آنکھوں میں تلا یار ترازو میں پڑے پھول

جا جا کے بہت زلف کے کوچے میں اڑے پھول
لیکن نہ کبھی کان کے پتے سے لڑے پھول

وہ مرغ چمن ہیں کہ بہار اپنی خزاں ہے
کلیائے پر و بال جب اپنے تو جھڑے پھول

کچھ بھی ہے جنہیں عزم وہی صدر نشیں ہیں
ہوتے ہیں گل روئے سبد سب سے بڑے پھول

سرسوں بھی نہیں پھولتی آنکھوں میں ہماری
جب تک کہ چڑھا جائیں نہ دو چار گھڑے پھول

روشن سخنی ختم ہے اس غنچہ دہن پر
ہتھ پھول کے منہ سے کبھی ایسے نہ جھڑے پھول

تقدیر میں ذلت تھی گل روئے صنم سے
تھالوں نے بہت گور جھنکائے نہ گڑے پھول

رانگا ہو اگر دست برنجن تو ہے چاندی
وہ گل جو نہ پہنے تو ہیں سونے کے کڑے پھول

فریاد کر اس درد سے اے مرغ گلستاں
کانٹے کی سناں باندھ کے گلچیں سے لڑے پھول

کس دن نہ کھنچے آہ شرربار کی تلوار
کسرات نہ میں نے سپر مہ میں جڑے پھول

کیا جرم ہے کس بلبل شیدا کو جلایا
کیوں چار پہر دھوپ میں ہوتے ہیں کھڑے پھول

کیا سبزۂ رخسار سے نسبت ہے چمن کو
کانٹے یہ وہ ہیں جن کی ہیں پلے میں دھڑے پھول

ہم زخمیوں کو چاندنی کی تاب نہیں ہے
سہتے ہیں کڑی دھوپ نہایت ہیں کڑے پھول

داغوں کے ہی قابل تھے ہم اس باغ میں اے بحرؔ
گلچین مقدر نے دیے ہیں یہ سڑے پھول

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse