چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
by سیماب اکبرآبادی

چمک جگنو کی برق بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

سحر تک سعیٔ نالہ رائیگاں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا تو بقدر یک فغاں معلوم ہوتی ہے

کسی کے دل میں گنجائش نہیں وہ بار ہستی ہوں
لحد کو بھی مری مٹی گراں معلوم ہوتی ہے

خزاں کے وقت بھی خاموش رہتی ہے فضا ساری
چمن کی پتی پتی راز داں معلوم ہوتی ہے

ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گرد کارواں معلوم ہوتی ہے

ترقی پر ہے روز افزوں خلش درد محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی وہاں معلوم ہوتی ہے

قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے

نہ کیوں سیمابؔ مجھ کو قدر ہو ویرانئ دل کی
یہ بنیاد نشاط دو جہاں معلوم ہوتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse