چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
by خواجہ میر درد

چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
بہار باغ گو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم

عرق کی بوند اس کی زلف سے رخسار پر ٹپکی
تعجب کی ہے جاگہ یہ پڑی خورشید پر شبنم

ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم

کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کی بیٹھتے رشک شرر شبنم

بھلا ٹک صبح ہونے دو اسے بھی دیکھ لیویں گے
کسی عاشق کے رونے سے نہیں رکھتی خبر شبنم

نہیں اسباب کچھ لازم سبک ساروں کے اٹھنے کو
گئی اڑ دیکھتے اپنے بغیر از بال و پر شبنم

نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہرگز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ پھر آئی نظر شبنم

نہ سمجھا دردؔ ہم نے بھید یاں کی شادی و غم کا
سحر خنداں ہے کیوں روتی ہے کس کو یاد کر شبنم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse