چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
by حیدر علی آتش

چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا

ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا

کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا

شب فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا

عدم میں ہستی سے جا کر یہی کہوں گا میں
ہزار حسرت زندہ کو گاڑ داب آیا

چکور حسن مہ چار دہ کو بھول گیا
مراد پر جو ترا عالم شباب آیا

محبت مے و معشوق ترک کر آتشؔ
سفید بال ہوئے موسم خضاب آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse