چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
by حیدر علی آتش

چمن میں رہنے دے کون آشیاں نہیں معلوم
نہال کس کو کرے باغباں نہیں معلوم

مرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلوم
خدا کا نام سنا ہے نشاں نہیں معلوم

اخیر ہو گئے غفلت میں دن جوانی کے
بہار عمر ہوئی کب خزاں نہیں معلوم

یہ اشتیاق شہادت میں محو تھا دم قتل
لگے ہیں زخم بدن پر کہاں نہیں معلوم

سنا جو ذکر الٰہی تو اس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے ہیں ہم نہاں نہیں معلوم

کیا ہے کس نے طریق سلوک سے آگاہ
مرید کس کا ہے پیر مغاں نہیں معلوم

مری طرح تو نہیں اس کو عشق کا آزار
یہ زرد رہتی ہے کیوں زعفراں نہیں معلوم

جہان و کار جہاں سے ہوں بے خبر میں مست
زمیں کدھر ہے کہاں آسماں نہیں معلوم

سپرد کس کے مرے بعد ہو امانت عشق
اٹھائے کون یہ نار گراں نہیں معلوم

خموش ایسا ہوا ہوں میں کم دماغی سے
دہن میں ہے کہ نہیں ہے زباں نہیں معلوم

مری تمہاری محبت ہے شہرۂ آفاق
کسے حقیقت ماہ و کتاں نہیں معلوم

کس آئینہ میں نہیں جلوہ گر تری تمثال
تجھے سمجھتے ہیں ہم این و آں نہیں معلوم

ملا تھا خضر کو کس طرح چشمۂ حیواں
ہمیں تو یار کا اپنے دہاں نہیں معلوم

کھلی ہے خانۂ صیاد میں ہماری آنکھ
قفس کو جانتے ہیں آشیاں نہیں معلوم

طریق عشق میں دیوانہ وار پھرتا ہوں
خبر گڑھے کی نہیں ہے کنواں نہیں معلوم

جو ہو تو شوق ہی ہو کوئے یار کا ہادی
کسی کو ورنہ سبیل جناں نہیں معلوم

دہن میں آپ کے البتہ ہم کو حجت ہے
کمر کا بھید جو پوچھوں میاں نہیں معلوم

نسیم صبح نے کیسا یہ اس کو بھڑکایا
ہنوز آتش گل کا دھواں نہیں معلوم

سنیں گے واقعہ اس کا زبان سوسن سے
شہید کس کا ہے یہ ارغواں نہیں معلوم

کنار آب چلے دور جام یا لب کشت
شکار ہووے بط مے کہاں نہیں معلوم

رسائی جس کی نہیں اے صنم در دل تک
یقیں ہے اس کو ترا آستاں نہیں معلوم

عجب نہیں ہے جو اہل سخن ہوں گوشہ نشیں
کسی دہن میں زباں کا مکاں نہیں معلوم

چھٹیں گے زیست کے پھندے سے کس دن اے آتشؔ
جنازہ ہوگا کب اپنا رواں نہیں معلوم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse