چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
by جلیل مانکپوری

چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
اندھیر ہوگا اس سے اگر ہو گیا بگاڑ

عاشق کو ہر طرح ہے مصیبت کا سامنا
اچھا ترا ملاپ نہ اچھا ترا بگاڑ

میں کیوں کروں کسی کو مکین مکان دل
میں کیوں کہوں کسی سے کہ تو گھر مرا بگاڑ

موقوف ایک دو پہ نہیں یار کا عتاب
اس سے جدا بگاڑ ہے اس سے جدا بگاڑ

ہوتی تھی عاشقوں میں بڑے لطف سے بسر
بیٹھے بٹھائے آپ نے کیوں کر لیا بگاڑ

ایسے مریض عشق کا کس سے علاج ہو
پیدا کرے مزاج میں جس کے دوا بگاڑ

نازک مزاج یار کا برتاؤ کیا کہوں
دو دن رہا ملاپ تو برسوں رہا بگاڑ

اچھوں میں عیب بھی ہو تو داخل ہنر میں ہے
رکھتا ہے سو بناؤ تری زلف کا بگاڑ

اچھا ہوا جلیلؔ سے تم صاف ہو گئے
اغیار نے تو ڈال دیا تھا برا بگاڑ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse