چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
by مومن خان مومن

چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
اے شب ہجر تیرا کالا منہ

آرزوئے نظارہ تھی تو نے
اتنی ہی بات پر چھپایا منہ

دشمنوں سے بگڑ گئی تو بھی
دیکھتے ہی مجھے بنایا منہ

بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ

ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ

شب غم کا بیان کیا کیجئے
ہے بڑی بات اور چھوٹا منہ

جب کہا یار سے دکھا صورت
ہنس کے بولا کہ دیکھو اپنا منہ

کس کو خون جگر پلائے گا
ساغر مے کو کیوں لگایا منہ

پھر گئی آنکھ مثل قبلہ نما
جس طرف اس صنم نے پھیرا منہ

گھر میں بیٹھے تھے کچھ اداس سے وہ
بولے بس دیکھتے ہی میرا منہ

ہم بھی غمگین سے ہیں آج کہیں
صبح اٹھے تھے دیکھ تیرا منہ

سنگ اسود نہیں ہے چشم بتاں
بوسہ مومنؔ طلب کرے کیا منہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse