چل دل اس کی گلی میں رو آویں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چل دل اس کی گلی میں رو آویں
by میر حسن دہلوی

چل دل اس کی گلی میں رو آویں
کچھ تو دل کا غبار دھو آویں

گو ابھی آئے ہیں یہ ہے جی میں
پھر بھی ٹک اس کے پاس ہو آویں

دل کو کھویا ہے کل جہاں جا کر
جی میں ہے آج جی بھی کھو آویں

پند گو میرا مغز کھانے کو
کاش آویں تو ایک دو آویں

ہم تو باتوں میں رام کر لیں انہیں
یہ بتاں اپنے پاس جو آویں

گو خفا ہی ہوا کرے پر ہم
اک ذرا اس کو دیکھ تو آویں

جب ہم آویں تو اپنے دل میں رکو
اور نہ آویں تو پھر کہو آویں

باز آئے ہم ایسے آنے سے
ہاں جو واقف نہ ہوویں سو آویں

کب تلک اس گلی میں روز حسنؔ
صبح کو جاویں شام کو آویں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse