چلے بت خانے کو خدا حافظ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چلے بت خانے کو خدا حافظ
by خواجہ محمد وزیر

چلے بت خانے کو خدا حافظ
تم بھی زاہد کہو خدا حافظ

تیرے کوچے سے پیچ اٹھا کے چلے
گیسوۓ مشکبو خدا حافظ

دم عیسیٰ سے بھی شفا نہ ہوئی
لو بس اے ہمدمو خدا حافظ

ہے بہت زود رنج دل میرا
یار ہے تند خو خدا حافظ

اس صنم کو خدا کہوں نہ کہوں
ہے سخن گو مگو خدا حافظ

دل کو بت خانہ کر کے کعبے چلے
زاہدو زاہدو خدا حافظ

ہے فرنگن کے گورے ہاتھ میں دل
جان کا صاحبو خدا حافظ

دیر سے مثل نالۂ ناقوس
جاتے ہیں اے بتو خدا حافظ

بات بھی کی تو یہ کہا شب وصل
جائیں ہم تم کہو خدا حافظ

شہ خوباں کے غم میں جان چلی
اے وزیرؔ اب کہو خدا حافظ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse