چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
by مظہر جان جاناں

چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا

الم سے یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا
ڈوبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خانداں اپنا

رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشق بدگماں اپنا

مرا جی جلتا ہے اس بلبل بیکس کی غربت پر
کہ جن نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا

جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم
کہ دولت خواہ اپنا مظہرؔ اپنا جان جاںؔ اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse