چلتی رہی اس کوچے میں تلوار ہمیشہ
چلتی رہی اس کوچے میں تلوار ہمیشہ
لاشے ہی نکلتے رہے دو چار ہمیشہ
گل کھلتے رہیں چہچہے کرتا رہے بلبل
یارب رہے آباد یہ گل زار ہمیشہ
ہم رند ہوئے شاہد مقصود سے واصل
جھگڑے میں رہے کافر و دیں دار ہمیشہ
یاں تخم تمنا سے اگا کرتا ہے لالہ
گل کھاتے ہیں ہر فصل میں دو چار ہمیشہ
تڑپا کریں کوچے میں ترے سیکڑوں کشتے
رنگیں رہے خوں سے تری تلوار ہمیشہ
دیوانے ہیں مائل ہوں اگر حور و پری کے
جو دیکھ رہے ہوں ترا دیدار ہمیشہ
مجھ تشنۂ دیدار کو کس روز چھکایا
پیاسا ہی رہا خوں کا وہ خونخوار ہمیشہ
مشتاقوں نے تیرے نہ لیا کوڑیوں کے مول
بکتا رہا یوسف سر بازار ہمیشہ
ہے زلف مسلسل تری یا دام بلا ہے
ہو رہتے ہیں دو چار گرفتار ہمیشہ
کیوں کر تو مسیحا ہوا مشہور جہاں میں
مرتے ہیں ترے ہاتھ سے بیمار ہمیشہ
ہنگامے نئے روز ہوا کرتے ہیں برپا
فتنے ہی اٹھاتی ہے وہ رفتار ہمیشہ
اے رندؔ جنوں میں بھی نہ صحرا کو گئے ہم
کھایا کئے پتھر سر بازار ہمیشہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |