چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
by خواجہ محمد وزیر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
زمین کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہو کر

کیا ویراں چمن کو آئے ہو کیا بوستاں ہو کر
ہوئے گل پانی پانی یہ چلی آب رواں ہو کر

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

جواب نامہ کیا لایا تن بے جاں میں جان آئی
گیا یاں سے کبوتر واں سے آیا مرغ جاں ہو کر

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا
لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

اگر آہستہ بولوں ناتوانی کہتی ہے بس بس
صدائے جنبش لب دیتے ہی صدمے فغاں ہو کر

ازار آتشیں خط سیہ اک دن نکالے گا
رلائے گا یہ شعلہ میری آنکھوں کا دھواں ہو کر

مکدر ہو اگر لو مجھ کو گاڑو اس طرف دیکھو
کہ زیر خاک ہوں گرد نگہ سے ناتواں ہو کر

کیا غیروں کو قتل اس نے موے ہم رشک کے مارے
اجل بھی دوستو آئی نصیب دشمناں ہو کر

پھرا صد چاک ہو کر کوچۂ کاکل سے دل اپنا
عزیزو یوسف گم گشتہ آیا کارواں ہو کر

کمان ابرو کی ایسے نرم ہے آئے گا جو ناوک
رہے گا استخواں میں اپنے مغز استخواں ہو کر

چھڑائی چوس کر ہم نے مسی تو کیا ہے شرمایا
لب اس محجوب کا چھپنے لگا منہ میں زباں ہو کر

فلک میری طرح آخر تجھے بھی پیس ڈالے گا
اڑے گا اے ہما اک روز گرد استخواں ہو کر

ہما سے ہے کڑا پن اے سگ جاناں جو تو کھائے
ملائم استخواں ہو جائیں مغز استخواں ہو کر

جہاں جو چاہئے ویسی ہی وہ دکھلائے نیرنگی
بصر آنکھوں میں گویائی زباں میں دل میں جاں ہو کر

ستم کر اس کے یہ دیکھے تو خوں ریزی پہ مائل ہو
کرے سنگ ملامت تیز خنجر کو فساں ہو کر

نہانے میں جو لہراتی ہے زلف یار دریا میں
تڑپنے لگتی ہیں پانی پہ موجیں مچھلیاں ہو کر

اداسی جھک کے ملتے ہو نگہ سے قتل کرتے ہو
ستم ایجاد ہو ناوک لگاتے ہو کماں ہو کر

اٹھائے گی جو ہم کو وحشت دل یار کے در سے
گریں گے پائزی پاؤں پہ اپنے بیڑیاں ہو کر

کہا جو اس نے چاہا ضعف سے یاں لب نہیں ملتے
سبک کر دیتی ہیں حرف سخن بار گراں ہو کر

اثر باقی رہا بل بے شب فرقت کی تاریکی
چراغ روز سے شعلہ نکل آیا دھواں ہو کر

خط نوخیز میں عارض جو تیرے چھپتے جاتے ہیں
پری بن جائیں گے اس سبز شیشے میں نہاں ہو کر

گرا قدموں پہ صید ناتواں تھا ہاتھ سے چھٹ کر
جگہ دے اب تو نقش پاے صیاد آشیاں ہو کر

ترے وحشی کو برسوں اے پری کب نیند آتی ہے
اگر خواب گراں آیا بھی تو سنگ گراں ہو کر

وزیرؔ اس کا ہوں میں شاگرد جس کو کہتے ہیں منصف
لیا ملک معانی بادشاہ شاعراں ہو کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse