چشم کو شوق اشک باری ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم کو شوق اشک باری ہے
by میر مظفر حسین ضمیر

چشم کو شوق اشک باری ہے
چشمۂ فیض ہے کہ جاری ہے

سوزن عیسوی سے کیا ہوگا
زخم اپنے جگر کا کاری ہے

ہم کہیں اور تم کہیں صاحب
خاک یہ زندگی ہماری ہے

رکھ کے سر اس قدم پہ مر جاتا
بس یہی طرز جاں نثاری ہے

کس کا سونا کسے ہے آتی نیند
شب ہجراں ہے اور اشک باری ہے

یہ جو اڑتی ہے تیرے کوچہ میں
خاکساروں کی خاکساری ہے

یہ سبک تو نے کر دیا ظالم
میرا مردہ بھی سب کو بھاری ہے

میرے جینے میں خوش نہ مرنے میں
پھر کہو کیا خوشی تمہاری ہے

ابر ساں ہے ہجوم بارش اشک
برق ساں شغل بے قراری ہے

جو نہیں تھا کسی شمار میں آہ
اسی عاشق کو دم شماری ہے

کیجو برباد اس کے کوچے میں
اے صبا خاک یہ ہماری ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse