چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
by سخی لکھنوی

چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
دل سوزاں یہاں کباب لذیذ

لب شیریں کے بوسے پائے ہیں
ہم نے دیکھا ہے آج خواب لذیذ

دہن زخم ہونٹھ چاٹتے ہیں
اس کی تلوار میں ہے آب لذیذ

کہاں تلخی کہاں یہ میٹھا پن
اس عرق سے ہے کب گلاب لذیذ

اس کے سیب ذقن کے عاشق ہیں
ہوگا محشر کے دن حساب لذیذ

میٹھی باتوں میں وصل کا انکار
ہے نئے طرح کا جواب لذیذ

کیسے شانے کے دانت پڑتے ہیں
ہے جو وہ زلف مشک ناب لذیذ

ترشیاں کس مزے مزے کی ہیں
ہے ہمیں یار کا شباب لذیذ

مر نہ جائے صنم مریض ہجر
شربت وصل دے شتاب لذیذ

ہو سکے گا نہ وصف سیب ذقن
اے سخیؔ ہے یہ بے حساب لذیذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse