چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
by شاہ نصیر

چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
رات دن موتی ہی برساتے ہیں ہم

جبکہ وہ تیر نگہ کھاتے ہیں ہم
سہم کر بس سرد ہو جاتے ہیں ہم

جنس دل کو چھوڑ مت اے زلف یار
ہے یہ سودا مفت ٹھہراتے ہیں ہم

ناصحا دست جنوں سے کام ہے
کب یہ چاک جیب سلواتے ہیں ہم

اس قدر مت کر شرارت شعلہ خیز
تیری ان باتوں سے جل جاتے ہیں ہم

کون کہتا ہے نہ کیجے امتحاں
گر ابھی کہیے تو مر جاتے ہیں ہم

خط بت نو خط لکھے ہے غیر کو
پیچ و تاب اس واسطے کھاتے ہیں ہم

کھولیے کیا آنکھ مانند حباب
طرفۃ العین آہ مٹ جاتے ہیں ہم

چھیڑنے سے زلف کے الجھو نہ تم
پڑ گیا ہے پیچ سلجھاتے ہیں ہم

گرچہ ہیں درویش لیکن اے فلک
تجھ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں ہم

نیم ناں کے واسطے کب جوں ہلال
تیرے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم

گلشن دنیا ہے نیرنگی کے ساتھ
اور کچھ اس کی روش پاتے ہیں ہم

کب برنگ بوئے گل باہر صبا
اپنے جامے سے نکل جاتے ہیں ہم

جس قدر ہاں دیکھتے ہیں اوڑھنا
پاؤں یاں اتنے ہی پھیلاتے ہیں ہم

کیا کریں کس سے کہیں ناچار ہیں
دل کی بے تابی سے گھبراتے ہیں ہم

کوئی بھی اتنا نہیں کہتا نصیرؔ
صبر کر ظالم اسے لاتے ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse