چشم قاتل ہمیں کیونکر نہ بھلا یاد رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم قاتل ہمیں کیونکر نہ بھلا یاد رہے
by محمد ابراہیم ذوق

چشم قاتل ہمیں کیونکر نہ بھلا یاد رہے
موت انسان کو لازم ہے سدا یاد رہے

میرا خوں ہے ترے کوچے میں بہا یاد رہے
یہ بہا وہ نہیں جس کا نہ بہا یاد رہے

کشتۂ زلف کے مرقد پہ تو اے لیلی وش
بید مجنوں ہی لگا تاکہ پتا یاد رہے

خاکساری ہے عجب وصف کہ جوں جوں ہو سوا
ہو صفا اور دل اہل صفا یاد رہے

ہو یہ لبیک حرم یا یہ اذان مسجد
مے کشو قلقل مینا کی صدا یاد رہے

یاد اس وعدہ فراموش نے غیروں سے بدی
یاد کچھ کم تو نہ تھی اور سوا یاد رہے

خط بھی لکھتے ہیں تو لیتے ہیں خطائی کاغذ
دیکھیے کب تک انہیں میری خطا یاد رہے

دو ورق میں کف حسرت کے دو عالم کا ہے علم
سبق عشق اگر تجھ کو دلا یاد رہے

قتل عاشق پہ کمر باندھی ہے اے دل اس نے
پر خدا ہے کہ اسے نام مرا یاد رہے

طائر قبلہ نما بن کے کہا دل نے مجھے
کہ تڑپ کر یوں ہی مر جائے گا جا یاد رہے

جب یہ دیں دار ہیں دنیا کی نمازیں پڑھتے
کاش اس وقت انہیں نام خدا یاد رہے

ہم پہ سو بار جفا ہو تو رکھو ایک نہ یاد
بھول کر بھی کبھی ہووے تو وفا یاد رہے

محو اتنا بھی نہ ہو عشق بتاں میں اے ذوقؔ
چاہیئے بندے کو ہر وقت خدا یاد رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse