چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا
by حسن بریلوی

چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا

دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا

پھر جلاؤ گے کبھی طالب دیدار کا خط
سیکڑوں آنکھوں سے اس نے تمہیں دیکھا دیکھا

کان وہ کان ہے جس نے تری آواز سنی
آنکھ وہ آنکھ ہے جس نے ترا جلوہ دیکھا

آپ کہتے ہیں کہ جا دیکھ لیا دل تیرا
کہیے تو اپنے سوا دل میں مرے کیا دیکھا

تم خبر بھی نہ ہوئے خانہ بدوشوں سے کبھی
ہم نے گھر پھونک دیا سب نے تماشا دیکھا

جن سے ہوں سوختہ جانوں کے کلیجے ٹھنڈے
انہیں جلووں سے حسنؔ طور کو جلتا دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse