چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا
by عزیز لکھنوی

چشم ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا
بھر گئی شیشوں میں مے گردش میں خود جام آ گیا

مضطرب دل اک تجلی میں فقط کام آ گیا
ابتدا ہی میں خیال عبرت انجام آ گیا

حسن خود آرا نہ یوں ہوتا حجاب اندر حجاب
شان تمکیں کو خیال منظر عام آ گیا

حسن نے اتنا تغافل میری ہستی سے کیا
رفتہ رفتہ زندگی کا مجھ پہ الزام آ گیا

انتظار اب شاق ہے اے ساقیٔ پیماں شکن
گھر گئے بادل صراحی آ گئی جام آ گیا

ہم تو سمجھے تھے سکوں پائیں گے بے ہوشی کے بعد
ہوش جب آیا تو پھر لب پر ترا نام آ گیا

خاک آخر ہو گیا سب ساز و سامان حیات
کیوں دل برباد حسرت اب تو آرام آ گیا

ہو گئی آسودگی جھگڑا چکا راحت ملی
ناتواں تھا دل نبرد عشق میں کام آ گیا

دل نے کی پیری میں پیدا غفلت عہد شباب
صبح کا بھولا جو منزل پر سر شام آ گیا

پردۂ دنیا میں اب بے سود ہیں یہ کوششیں
اے فریب آب و دانہ میں تہ دام آ گیا

رند مستغنی ہیں دنیا سے غرض ہم کو عزیزؔ
دولت جم مل گئی جب ہاتھ میں جام آ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse