چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
by جوشش عظیم آبادی

چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
ہیں جدا لیکن بوقت کار دونوں ایک ہیں

باعث آرام یہ نے موجب آزار وہ
چشم وحدت میں ہی گل اور خار دونوں ایک ہیں

التیام زخم دل کے حق میں گر کیجے نگاہ
سبزۂ خط مرہم زنگار دونوں ایک ہیں

حالت استغنا کی جس کے ہاتھ آئی ہے یہاں
اس کے نزدیک اندک و بسیار دونوں ایک ہیں

میرے اس کے گو جدائی آ گئی ہے درمیاں
جس گھڑی باہم ہوئے دو چار دونوں ایک ہیں

جو نہ مانے اس کو عاشق ہو کے اس پہ دیکھ لے
ابروئے خم دار اور تلوار دونوں ایک ہیں

کیا کہوں میں اس کو آنکھوں نے دیئے ہیں جو فریب
فن مکاری میں یہ مکار دونوں ایک ہیں

جو ہے کعبہ وہ ہی بت خانہ ہے شیخ و برہمن
اس کی ناحق کرتے ہو تکرار دونوں ایک ہیں

یہ نہیں کہنے کا ؔجوشش ہوگا جو صاحب دماغ
زلف یار و نافۂ تاتار دونوں ایک ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse