چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بجا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بجا کیا
by حکیم محمد اجمل خاں شیدا

چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بجا کیا
دل اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا

اب کھولیے کتاب نصیحت کو شیخ پھر
شب مے کدہ میں آپ نے جو کچھ کیا کیا

وہ خواب ناز میں تھے مرا دیدۂ نیاز
دیکھا کیا اور ان کی بلائیں لیا کیا

روز ازل سے تا بہ ابد اپنی جیب کا
تھا ایک چاک جس کو میں بیٹھا سیا کیا

دیکھے جو داغ دامن عصیاں پہ بے شمار
میں نے بھی جوش گریہ سے طوفاں بپا کیا

گم کردہ راہ آئے ہیں وہ آج میرے گھر
اے میری آہ نیم شبی تو نے کیا کیا

کیا پوچھتے ہو دست قناعت کی کوتہی
کچھ وا شب وصال میں بند قبا کیا

لذت ہی تھی کچھ ایسی کہ چھوڑا نہ صبر کو
کرتے رہے وہ جور و ستم میں سہا کیا

کیا شے تھی وہ جو آنکھ سے دل میں اتر گئی
دل سے اٹھی تو اشک کا طوفاں بپا کیا

پھر لے چلا ہے کل مجھے کیوں بزم یار میں
ایجاد اس نے کیا کوئی طرز جفا کیا

شیداؔ غزل پڑھو کوئی مجلس میں دوسری
اک پڑھ کے رہ گئے تو بھلا تم نے کیا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse