چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
Appearance
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جرأت عرض حال کیا ہوتی
نظر لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں قدر یا اللہ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں
شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |