چراغ مہ سیں روشن تر ہے حسن بے مثال اس کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چراغ مہ سیں روشن تر ہے حسن بے مثال اس کا
by سراج اورنگ آبادی

چراغ مہ سیں روشن تر ہے حسن بے مثال اس کا
کہ چوتھے چرخ پر خورشید ہے عکس جمال اس کا

صنم کی زلف کے حلقے میں ہے جیوں جیم کا نقطہ
عجب ہے خوش نما اس عارض گلگوں پہ خال اس کا

عیاں ہوتا ہے جیوں کر سرو پانی کے کنارے پر
ہوا یوں جلوہ گر آنکھوں میں قد نونہال اس کا

جدا جب سیں ہوا وو دلبر جادو نظر مجھ سیں
جدا ہوتا نہیں یک آن خاطر سیں خیال اس کا

مجھے ہے آرزو دل میں تری چاہ زنخداں کی
نہیں درکار حوض کوثر و آب زلال اس کا

گرفتار ہوس کیا لذت دیدار کوں پاوے
جدا جو کوئی ہوا ہے آپ سیں پایا وصال اس کا

سراجؔ اے شعلہ رو ہے کون سا سو میں نہیں واقف
مجھے کیا پوچھتا ہے پوچھ پروانے سیں حال اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse