چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
چراغ زیست بجھا دل سے اک دھواں نکلا
لگا کے آگ مرے گھر سے میہماں نکلا
دل اپنا خاک تھا پھر خاک کو جلانا کیا
نہ کوئی شعلہ اٹھا اور نہ کچھ دھواں نکلا
سنیں گے چھیڑ کے افسانۂ دل مرحوم
ادھر سے ملک عدم کا جو کارواں نکلا
تڑپ کے آبلہ پا اٹھ کھڑے ہوئے آخر
تلاش یار میں جب کوئی کارواں نکلا
لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا
حریم ناز میں شاید کسی کو دخل نہیں
دل عزیز بھی نا خواندہ میہماں نکلا
نہاں تھا خانۂ دل میں ہی شاہد مقصود
جو بے نشاں تھا وہ دیوار درمیاں نکلا
ہے فن عشق کا استاد بس دل وحشی
مریض غم کا یہی اک مزاج داں نکلا
لگا ہے دل کو اب انجام کار کا کھٹکا
بہار گل سے بھی اک پہلوئے خزاں نکلا
زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا
ہمارے صبر کی کھاتے ہیں اب قسم اغیار
جفا کشی کا مزہ بعد امتحاں نکلا
خوشی سے ہو گئے بد خواہ میرے شادیٔ مرگ
کفن پہن کے جو میں گھر سے ناگہاں نکلا
اجل سے بڑھ کے محافظ نہیں کوئی اپنا
خدا کی شان کہ دشمن نگاہ باں نکلا
دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا
لحد سے بڑھ کے نہیں کوئی گوشۂ راحت
قیامت آئی جو اس گھر سے میہماں نکلا
اب اپنی روح ہے اور سیر عالم بالا
کنویں سے یوسف گم کردہ کارواں نکلا
کلام یاسؔ سے دنیا میں پھر اک آگ لگی
یہ کون حضرت آتشؔ کا ہم زباں نکلا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |