چتون کی کہوں کہ اشارات کی گرمی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چتون کی کہوں کہ اشارات کی گرمی
by نظیر اکبر آبادی

چتون کی کہوں کہ اشارات کی گرمی
ہے نام خدا اس میں ہر ایک بات کی گرمی

رونے سے مرے اس کو عرق آ گیا یارو
سچ ہے کہ بری ہوتی ہے برسات کی گرمی

ٹک پھول چھوا تھا سو نزاکت سے کئی بار
رہ رہ کے دکھائی مجھے گل ہات کی گرمی

کھلواتے ہی بندوں کے بدن گرم ہو آیا
شاید کہ لگی اس کو مرے ہات کی گرمی

جلتا ہوں میں اور شعلے نہیں دیتے دکھائی
ہے عشق میں یارو یہ طلسمات کی گرمی

رہنا ہے کوئی دن تو سمجھ جائیو اے دل
یاں پھر وہی ٹھہری ہے ملاقات کی گرمی

گرمی تھی کہیں آہ ہم افسردہ دلوں میں
ساقی کی فقط ہے یہ عنایات کی گرمی

آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ
اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی

کہتا ہے وہ جس دم کہ چلو ہم سے نہ بولو
اس بات میں ہے اور ہی ایک بات کی گرمی

سب پوچ ہے ظاہر کی یہ شوخی و شرارت
معشوق میں جب تک کہ نہ ہو ذات کی گرمی

تم غصہ ہو یا قہر ہو آتش ہو غضب ہو
اب ہم نے یہ سب دل پہ مساوات کی گرمی

یا حضرت دل تم تو بڑے صاحب دل تھے
رکھتے تھے بہت اپنے کمالات کی گرمی

ایک ہی نگہ گرم سے بس ہو گئے تم سرد
اب کہئے کہاں ہے وہ کرامات کی گرمی

یوں گرمی صحبت تو بہت ہوگی نظیرؔ آہ
پر یار نہ بھولے گی مجھے رات کی گرمی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse