چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے
by نظیر اکبر آبادی

چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے
کافر تری نظروں میں کچھ اور ہی چھل بل ہے

بالا بھی چمکتا ہے جگنو بھی دمکتا ہے
بدھی کی لپٹ تس پر تعویذ کی ہیکل ہے

گورا وہ گلا نازک اور پیٹ ملائی سا
سینے کی صفائی بھی ایسی گویا مخمل ہے

وہ حسن کے گلشن میں مغرور نہ ہو کیوں کر
بڑھتی ہوئی ڈالی ہے اٹھتی ہوئی کونپل ہے

انگیا وہ غضب جس کو ململ ہی کرے دل بھی
کیا جانے کہ شبنم ہے نن سکھ ہے کہ ململ ہے

یہ دو جو نئے پھل ہیں سینے پہ ترے ظالم
ٹک ہاتھ لگانے دے جینے کا یہی پھل ہے

ابھرا ہوا وہ سینہ اور جوش بھرا جوبن
ایک ناز کا دریا ہے اک حسن کا بادل ہے

کیا کیجے بیاں یارو چنچل کی رکھاوٹ کا
ہر بات میں در در ہے ہر آن میں چلچل ہے

یہ وقت ہے خلوت کا اے جان نہ کر کل کل
کافر تری کل کل سے اب جی مرا بیکل ہے

کل میں نے کہا اس سے کیا دل میں یہ آیا جو
کنگھی ہے نہ چوٹی ہے مسی ہے نہ کاجل ہے

معلوم ہوا ہم سے روٹھے ہو تم اے جانی
الٹا ہی دوپٹے کا مکھڑے پہ یہ آنچل ہے

یہ سن کے لگی کہنے روٹھی تو نہیں تجھ سے
پر کیا کہوں دو دن سے کچھ دل مرا بیکل ہے

جس دن ہی نظیرؔ آ کر وہ شوخ ملے ہم سے
ہتھ پھیر ہیں بوسے ہیں دن رات کی مل دل ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse