چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
by مبارک عظیم آبادی

چتون جو قہر کی ہے تو تیور جلال کے
مطلب یہ ہے کہ رکھ دے کلیجہ نکال کے

واعظ سے بحث بادہ و پیمانہ کیا کروں
کچھ لوگ رہ گئے ہیں پرانے خیال کے

سو داغ جن کے لائے ہیں زیر مزار ہم
احساں جتا رہے ہیں وہ دو پھول ڈال کے

پھر ڈھونڈھتا ہے دل خلش خار آرزو
پچھتا رہا ہوں دل سے یہ کانٹا نکال کے

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse