چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
by نظیر اکبر آبادی

چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
شغل میں اس کے شوق بڑھا کر کام کو چھوڑا کام کیا

زلف دوپٹہ دھانی میں کر کے پنہاں مرا دل باندھ لیا
صید نہ کھاوے کیوں کر جل جب سبزے میں پنہاں دام کیا

رم پر اپنے آہوئے دل کو غرہ نہایت تھا لیکن
چنچل آہوئے چشم نے اس کو ایک نگہ میں رام کیا

سمجھے تھے یوں ہم دل کو لگا کر پاویں گے یاں آرام بہت
حیف اسی فہمید نے ہم کو کیا کیا بے آرام کیا

ہم نے کہا جب ناز بتاں کے تم تو بہت کام آئے نظیرؔ
سن کے کہا کیا آئے جی ہاں کچھ بت کے موافق کام کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse