چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
by مرزا غالب

چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے، اپنے کو کھینچا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟
بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے!

چاک مت کر جیب، بے ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چُھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دُشمنی نے میری، کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے، دیکھا چاہیے

اپنی، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خُوبرویوں کو اسدؔ
آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse