چاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیں
by نظیر اکبر آبادی

چاہت کے اب افشا کن اسرار تو ہم ہیں
کیوں دل سے جھگڑتے ہو گنہ گار تو ہم ہیں

رو آئینے کو دیتے ہو برعکس ہمارے
آئینہ رکھو طالب دیدار تو ہم ہیں

گلشن میں عجب جاتے ہو کر حسن کی تزئین
اس جنس دل آرا کے خریدار تو ہم ہیں

کیا کبک کو دکھلاتے ہو انداز خرام آہ
حسرت زدۂ شوخئ رفتار تو ہم ہیں

کی چشم سوئے نرگس بیمار تو پھر کیا
اس عین عنایت کے سزا وار تو ہم ہیں

دل دے کے دل آزار کو کیا شکوۂ بیداد
گر سوچیے اپنے لیے آزار تو ہم ہیں

جس دن سے پھنسے دیکھی نہ پھر شکل رہائی
کیا کہئے نظیرؔ ایسے گرفتار تو ہم ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse